دینی مدارس کا مزاج

از: قاری سعید الرحمن‏، جامعہ اسلامیہ راولپنڈی، پاکستان

 

صدیوں سے دینی مدارس قائم ہیں اور اپنے مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہیں، دین کی جو بہاریں آج نظر آرہی ہیں وہ ان دینی مراکز کی برکات ہیں۔ حکومتی تعاون سے الگ تھلگ اپنے مزاج کے مطابق خاموشی سے اپنے کام میں یہ ادارے مگن ہیں۔ مدارس کی نشأة ثانیہ کا آغاز اب سے ایک سو چالیس(۱۴۰) سال قبل محرم ۱۲۸۳ھ =۱۸۶۷/ میں دارالعلوم دیوبند اور پھر رجب ۱۲۸۳ھ= ۱۸۶۸/ میں مظاہر علوم سہارنپور سے ہوا۔ نشأة ثانیہ کے اس دور سے آج تک مدارس بڑے بحرانوں سے دوچار رہے، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے غیروں کے بے پناہ سازشوں کے باوجود اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے۔ اربابِ مدارس اور علماء کرام کی مساعی اپنی جگہ اہم ہیں لیکن اصحابِ خیر مسلمانوں کا تعاون بھی انتہائی قابل رشک ہے۔ اسی لیے مدارس کبھی حکومتی تعاون کے دستِ نگر نہیں رہے، اربابِ مدارس کے سامنے بانی دارالعلوم دیوبند قاسم العلوم والخیرات حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوی کے وہ آٹھ اصول ہیں جو آج بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں حضرت کے قلم سے محفوظ ہیں۔ ان میں سے ایک اصول نمبر ۸ یہ ہے کہ: ”اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی اس کی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر، کارخانہٴ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجاء جو سرمایہٴ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اورامداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا۔“ القصہ آمدنی اور تعمیر میں ایک قسم کی بے سروسامانی رہی۔ (تاریخ دارالعلوم،ص:۱۰۶)

دارالعلوم دیوبند کے بارے میں مشہور موٴرخ شیخ محمد اکرام اپنی کتاب ”موج کوثر“ میں لکھتے ہیں کہ: ”دارالعلوم دیوبند کی ابتداء نہایت معمولی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم اور بانیوں کے حسنِ نیت سے جلدہی اس نے ترقی شروع کردی۔“ آگے لکھتے ہیں کہ: ”دیوبند کا قیام جنگ آزادی کے بیس پچیس سال بعد ہوا، لیکن جلد ہی اس نے قوم کے تعلیمی نظام میں معزز جگہ حاصل کرلی اور آج قدیم طرز کی اسلامی درس گاہوں میں سب سے ․․․ اس کی ترقی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا بیج اچھا تھا اوراچھے ہاتھوں سے بویا گیا تھا۔“

آگے لکھتے ہیں: ”دارالعلوم کو خوش قسمتی سے ایسے اساتذہ ملے جنھوں نے قوم کی نظروں میں اس کا وقار بڑھا دیا۔ مثلاً مولانا محمود الحسن محدّث، مولانا انور شاہ محدّث اورمولانا شبیر احمد عثمانی یہ لوگ زہد و تقویٰ، راست گوئی، بے ریائی اور بے حرصی میں اسلاف کے بہترین علماء و صلحاء کا نمونہ تھے، خود غرضیوں اور کج بحثوں سے قطعاً پاک۔ نتیجہ یہ کہ مخالفین بھی ان کی عزت کرتے (موج کوثر،ص:۲۰۶ تا ۲۰۹) ان کے علاوہ شیخ المحدثین حضرت مولانا محمدیعقوب نانوتوی اور شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قابل ذکر ہیں۔

دور حاضر کی عظیم شخصیت، علم و روحانیت کا حسین امتزاج، زندگی کا بیشتر حصہ درس و تدریس میں گذارنے والے، علماء وطلباء کیلئے قابل تقلید ہستی، تقریباً پونے صدی مدارس کے نظام سے وابستہ یعنی حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نے اپنی خود نوشت اور دلچسپ معلوماتی اوراکابر کے ذکر پر مشتمل ”آپ بیتی“ میں مدارس کے مزاج اور طلباء و علماء کے لئے بڑی فکر انگیز معلومات مہیا فرمائی ہیں۔ آج کل جب کہ سیکولر لابی اور مدارسِ دینیہ کے خلاف قوتیں و طاقتیں ان اسلامی مراکز کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں علماء و طلباء کیلئے ان اکابر کے تجربات قابل توجہ ہیں۔ ”آپ بیتی“ ص:۳۵ میں ”طلباء کی تربیت اور اس کی اہمیت“ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ”میرے اکابر کے ہاں طلباء کے آداب پر خصوصی نگاہ رہتی تھی۔ اوّل تو اس زمانہ میں اکابر اوراساتذہ کا احترام طلباء کے اندر مرکوز تھا، حضرت حکیم لامّة تھانوی کو بھی اس کا بہت احساس تھا ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں کہ ”فلاں مدرسہ میں ایک وقت میں اکابر کی ایک ایسی جماعت تھی کہ ہر قسم کی خیروبرکات موجود تھیں، ظاہر کے اعتبار سے بھی اور باطن کے اعتبار سے بھی، اس وقت تعمیر اتنی بڑی نہ تھی مگر ایک ایسی چیز اتنی بڑی تھی کہ مدرسہ خانقاہ معلوم ہوتا تھا ہر چہار طرف بزرگ ہی بزرگ نظر آتے تھے، اب سب کچھ ہے اور پہلے سے ہرچیز زائد ہے مگر وہی چیز نہیں جو اس وقت تھی گویا جسد ہے روح نہیں۔“ مدرسہ میں انجمن قائم کرنے پر فرمایا ”اب تعلیم و تربیت ختم اور نہ اب استاذ کا ادب رہا اورنہ مہتمم صاحب کا ادب رہا، نہ پیر کا ادب رہا نہ باپ کا“ یہ نہایت مشہور مقولہ اور نہایت مجرّب ہے کہ ”شاگرد استاذ کی بے حرمتی سے علم کی برکات سے ہمیشہ محروم رہتا ہے اور والدین کے بے حرمتی کرنے والا روزی سے ہمیشہ پریشان رہتاہے۔“

حضرت مولانا محمد الیاس صاحب دہلوی رئیس التبلیغ کے ملفوظات میں مولانا محمد منظور صاحب نعمانی نے طلباء کے متعلق تین اصول تفصیل سے لکھوائے، مرض الوفات میں جب ضعف انتہاء کو پہنچا ہوا تھا بات کرنے کی طاقت نہیں تھی بعد نماز فجر خاکسار کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ کان بالکل میرے لبوں سے لگادو اور سنو! یہ طلباء اللہ کی امانت اوراس کا عطیہ ہیں ان کی قدر اور اس نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ ان کا وقت ان کی حیثیت کے مناسب پورے اہتمام سے کام میں لگایا جائے اور ذرا سا وقت بھی ضائع نہ جائے، یہ بہت کم وقت لے کر آئے ہیں، پہلے میری دو تین باتیں ان کو پہنچادو: پہلی یہ کہ اپنے تمام اساتذہ کی توقیر اوران سب کا ادب و احترام آپ کا خصوصی اور امتیازی فریضہ ہے آپ کو ان کی تعظیم کرنی چاہیے جیسے کہ ائمہ دین کی کی جاتی ہے وہ آپ لوگوں کیلئے علم نبوی کے حصول کا ذریعہ ہیں علم دین کے اساتذہ کے حقوق کا معاملہ اور بھی زیادہ نازک ہے ان طلباء کو میرا ایک پیغام تو یہ پہنچاؤ کہ اپنی زندگی کے اس پہلو کے اصلاح کی یہ خاص طور سے فکر کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”علم لا ینفع“ سے پناہ مانگی اوراس کے علاوہ بھی عالم بے عمل کے لئے جو سخت وعیدیں قرآن وحدیث میں آئی ہیں وہ آپ کے علم میں ہیں۔ دوسری بات ان طلبہ سے یہ کہی جائے کہ ان کا وقت بڑا قیمتی ہے وہ بہت تھوڑا وقت لے کر آئے ہیں لہٰذا اس کا ایک لمحہ بھی یہاں ضائع نہ کریں آگے فرمایا یہ طے شدہ امر ہے اور عادت اللہ ہمیشہ سے یہی جاری ہے کہ اساتذہ کا احترام نہ کرنے والا کبھی بھی علم سے منتفع نہیں ہوسکتا۔“ حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی کے مقبول اور مستجاب ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ کا تبلیغی کارنامہ آج پوری دنیا میں جاری و ساری ہے۔ ان کا یہ ملفوظ علماء و طلباء کیلئے فکر انگیز ہے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب آگے فرماتے ہیں کہ میرا تجربہ یہاں تک ہے کہ انگریزی طلبہ میں بھی جو لوگ طالب علمی میں اساتذہ کی مار کھاتے ہیں وہ کافی ترقیاں حاصل کرتے ہیں۔ اونچے اونچے عہدوں پر پہنچتے ہیں غرض جس سے وہ علم حاصل کیا تھا وہ نفع پورے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ اور جو اس زمانہ میں استاذوں کے ساتھ نخوت و تکبر سے رہتے ہیں وہ بعد میں اپنی ڈگریاں لئے ہوئے سفارشیں ہی کراتے ہیں کہیں اگر ملازمت مل بھی جاتی ہے تو آئے دن اس پر آفات آتی رہتی ہیں بہرحال جو علم بھی ہو اس کا کمال اس وقت تک ہوتا ہی نہیں اور اس کا نفع حاصل ہی نہیں ہوتا جب تک اس فن کے اساتذہ کا ادب نہ کرے چہ جائے کہ ان سے مخالفت کرے۔ (آپ بیتی،ص:۶۲)

”تذکرة الرشید“ میں لکھا ہے کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے بارہا فرمایا کہ ”جب میں اور مولوی محمد قاسم دہلی میں استاذ (مولانا مملوک علی) سے پڑھتے تھے، منطق کی کتاب ”سلم العلوم“ شروع کرنے کا ارادہ ہوا۔ وقت میں کمی کی وجہ سے دوبار ہفتہ میں پڑھانے کا طے ہوا۔ ایک روز یہی سبق ہورہا تھا کہ ایک شخص نیلی لنگی کندھے پر ڈالے ہوئے آنکلے اور ان کو دیکھ کر حضرت مولوی صاحب مع تمام مجمع کے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ لو بھئی حاجی صاحب (حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب) آگئے، حاجی صاحب آگئے اور حضرت مولانا نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا:لو بھائی رشید سبق پھر ہوگا مجھے سبق کا بہت افسوس ہوا اور میں نے مولوی محمد قاسم صاحب سے کہا بھئی یہ اچھا حاجی آیا ہے ہمارا سبق ہی گیا۔ مولوی محمد قاسم صاحب نے کہا ایسا مت کہو یہ بزرگ ہیں اور ایسے ہیں، ایسے ہیں۔ حضرت حاجی صاحب ہمارا حال دریافت فرمایا کرتے اوریوں کہا کرتے تھے کہ سارے طالب علموں میں وہ دو طالب علم (مولانا نانوتوی اور مولانا گنگوہی) ہوشیار معلوم ہوتے ہیں“ حضرت حاجی صاحب کی آمد پر مولانا مملوک علی صاحب کا اس عقیدت و احترام سے کھڑا ہونا دلیل ہے کہ بڑوں کی عزت کس طرح کی جاتی ہے۔

پہلے دور میں مدارس میں ہڑتالیں سٹرائی (Strike) وغیرہ ناپید تھیں بعد میں جب طلبہ کے مزاج میں آزادی، خودرائی، اساتذہ اور بڑوں کی بے ادبی کی فضاء پیدا ہونی شروع ہوئی تو یہ تحریکات بھی ظاہر ہونے لگیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نے ”آپ بیتی“ میں ۱۳۸۴ھ میں مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں ناکام سٹرائیک پر تفصیلی بحث فرمائی ہے اوراس کے عبرت ناک اور حیرت انگیز نتائج کا ذکر فرمایا ہے جو اس دور کے طلبہ کیلئے انتہائی قابل توجہ ہیں۔

حضرت فرماتے ہیں: ”اس ناکارہ نے اپنی زندگی میں تکبر اور گھمنڈ کے بہت ہی نقصانات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور جھوٹوں اور نادانوں کی زبان کی بدولت بڑے بڑے اکابر کو پریشانیوں میں مبتلا دیکھا۔ مدرسہ مظاہر علوم کی ۱۳۸۴ھ کی ناکام سٹرائیک اسی عُجب و پندار کے ثمرات کا نتیجہ تھا۔ مدارس میں طلبہ کا اخراج ہوتا ہی رہتا ہے لیکن اس عجب کی نحوست نے ایک معمولی طالب علم کے اخراج کو سٹرائیک تک پہنچادیا۔ میرے نزدیک تو اس ہنگامہ کی بنیاد شاہ عبدالقادر رائے پوری کا سایہ سرپرستی سے اٹھنا تھا ۱۳۸۲ھ میں حضرت کا وصال لاہور میں ہوا۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ مدرسہ کے ممبران میں اہل اللہ ضرور ہونے چاہئیں۔ ایک طالب علم جس کی بہت سی شکایتیں مدرسہ مظاہر علوم کی شاخ مدرسہ خلیلیہ کے ناظم کے پاس پہنچ رہی تھیں، سینمابینی، انگریزی بال، اساتذہ کا عدم احترام، نماز کی عدم پابندی، مدرسہ کے اہل شوریٰ کے مشورہ سے اس کا اخراج کیاگیا، اس طالب علم نے لیبر یونین کے ایک غیرمسلم لیڈر کے مشورہ سے رات تقریر کی کہ میرا اخراج تم سب کے اتفاق سے رک سکتا ہے۔ میں نے ناظم صاحب کو کہا کہ اس ہنگامہ کی خبر لے، مگران کو اپنی نظامت پر اتنا گھمنڈ تھا کہ انھوں نے مجھے اطمینان دلایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ چند دن بعد معلوم ہوا کہ طلباء نے اندر سے دروازہ بند کرکے ایک درخواست ناظم صاحب کے پاس بھیجی، جس میں بہت سے لغومطالبات کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا فلاں طالب علم کا اخراج ملتوی کیا جائے، مدرسہ کے سب اکابر، ناظم صاحب مولانا اسعد اللہ صاحب، مولانا امیراحمد صاحب صدر مدرس وغیرہ نے بارہا سمجھایا، مگر وہ نہ مانے اس ہنگامہ میں (مرکزی) مدرسہ مظاہر علوم کے طلبہ نے بھی عصبیت جاہلیہ میں ان کا ساتھ دینے کا تہیہ کیا۔ فوراً ایک جمعیة الطلبہ قائم ہوئی، صدر اور ناظم متعین ہوکر حلف اٹھالئے گئے کہ جب تک شاخ والوں کے مطالبات پورے نہ ہوں مدرسہ میں بھی سٹرائیک کی جائے۔ مدرسہ کی مجلس شوریٰ میں جب یہ مسئلہ پیش ہوا تو میں نے بڑے زور سے کہا کہ اس میں دورئہ حدیث کا کوئی طالب شریک نہیں، مدرسہ کے نائب ناظم تعلیمات مولانا عبدالمجید صاحب نے دبی زبان سے کہا کہ دورہ والے بھی اس میں ہیں، میرے گھمنڈ کا مبنی یہ تھا کہ ۱۳۴۰ھ سے حدیث کے سبق میں طلبہ کو ہر سال ان کا مقام و حیثیت بتاتا اور یہ کہ تم عنقریب مقتدائے قوم بننے والے ہو۔ مجھے پختہ یقین تھا کہ اس سال دورئہ حدیث والوں کی اکثریت جنید و شبلی بنیں گے، مگر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب تحقیق سے معلوم ہوا کہ دورئہ حدیث کی پوری جماعت اس میں پیش پیش ہے اور زیادہ قلق اس سے ہوا کہ مجھ سے اور دیگر اساتذہ سے خصوصی تعلق رکھنے والے طلبہ درپردہ شریک رہے دورہ کی اس جماعت کے حالات پر جو قلبی چوٹ لگی وہ آج دس برس تک بھی فراموش نہیں ہوئی۔ اس دوران ان طلبہ نے اپنے اساتذہ کی خوب بے عزتی کی۔ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب مظاہر علوم تشریف لائے اور تبلیغی جماعتوں کو مسجد میں مستقل ٹھہرادیا جو ذکر و تلاوت اور دعاؤں میں مصروف رہتے، مختلف صوبوں و علاقوں کی جماعتیں آتی اور اپنے اپنے صوبہ وعلاقہ کے طلبہ کو سمجھاتے۔ آخر میں افریقہ ممباسہ کے الحاج ابراہیم اسحاق آئے، انھوں نے طلبہ کے اس گروہ کے صدر صاحب سے گفتگو کی۔ پہلے انھوں نے سٹرائیک کی وجوہ بیان کیں۔ حاجی صاحب نے پوچھا کہ آپ لوگ مدرسہ میں کتنی فیس داخل کراتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہمارے مدارس میں فیس نہیں ہوا کرتی۔ س: آپ لوگ فارغ ہونے کے بعد مدرسہ کی کیا خدمت کرتے ہو؟ ج: کوئی متعین نہیں۔ س: آپ لوگ کھانے کا اپنے خود انتظام کرتے ہو یامدرسہ میں قیمت داخل کرتے ہو؟ ج: ہمارا کھانا مدرسہ کی طرف سے مفت ملتا ہے۔ حاجی صاحب نے کہا کہ جب سب کچھ مدرسہ آپ کو مفت دیتاہے تو پھر سٹرائیک کیوں کررہے ہو۔ اس دوران مدرسہ کے منتظمین کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی بھی زبردست سازشیں کی گئیں جواللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ناکام ہوئیں۔

ایک اور مقام پر حضرت شیخ الحدیث مدارس میں طلبہ تنظیموں کے وجود کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ناکارہ مدارس عربیہ میں جمعیة الطلبہ کا انتہائی مخالف ہے۔ اس کی قباحت تو طالب علمی کی زمانہ ہی سے میرے دل میں پڑی ہوئی ہے۔ مگر دن بدن تجربات نے مجھ کو تو اس سے اس قدر متنفر بنادیا کہ اس کے نام سے نفرت، اس کے شرکاء سے طبیعت میں انقباض ہوتا ہے۔ اس ناکارہ کا اپنے اکابر کے ساتھ ایک معمول ہمیشہ رہا ہے کہ یہ ناکارہ صحابہ کرام کی طرح کہ وہ ہر فعل کو یوں فرماتے تھے کیف افعل مالم یفعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم - یعنی جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں - اور علامہ منذری نے ترغیب و ترہیب میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے ”البرکة مع اکابرکم“ (ترغیب،ج:۱، ص:۵۳) کہ برکت تمہارے اکابر کے ساتھ ہوتی ہے۔ میرے اکابر جو حقیقی معنی میں انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے وارثین و نائبین ہیں اور ان کے اقوال و افعال کو میں نے سنت کے بہت ہی زیادہ موافق پایا ہے اوراس کے خلاف میں ہمیشہ نقصان ہی پایا ہے، ان سب اکابر کو بھی میں نے ہمیشہ طلبہ تنظیموں کے مخالف ہی پایا ․․․ ان تنظیمات سے وابستہ طلباء میں اکابر کی بے حرمتی، اکابر مدرسہ اوراساتذئہ کرام کی حکم عدولی، توہین وغیرہ کے مناظر گذرے جب سے تو اس سے بہت ہی نفرت بڑھ گئی - ان طلباء میں اکابر کا احترام تو بالکل ہی نہیں رہتا۔ علوم سے مناسبت بھی قائم نہیں رہتی، اچھی تقریر تو مشق سے پیدا ہوجاتی ہے جس سے وہ اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھنے لگتے ہیں اوراساتذہ پر تنقیدات شروع کردیتے ہیں جس سے علم سے محرومی طے شدہ ہے۔

ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ وفاق المدارس کو اللہ تعالیٰ نے جو مقبولیت عطا فرمائی ہے، اس سلسلة الذہب میں مدارس باہم منسلک ہیں، لیکن خطرہ ہے کہ گھمنڈ کی وجہ سے اس کو نظر نہ لگ جائے، اسلئے تعداد کی کثرت کو بیان کرنے کی بجائے اس کی کارکردگی اور تعلیمی معیار کی طرف توجہ دی جائے۔ مدارس کے طلبہ میں بڑوں کا ادب و احترام علمی صلاحیت کیلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے جو آج کے دور میں مضمحل بلکہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان کے بزرگ عالم دین مولانا قاری صدیق احمد باندوی نے ”آداب المتعلمین“ میں اپنے استاذ کا واقعہ لکھا ہے کہ ”حضرت استاذی مولانا شاہ عبدالرحمن صاحب محدث صدرالمدرسین مظاہر علوم سہارنپور (راقم کے والد محترم) نے اپنا ایک واقعہ سنایا تھا کہ میں اپنے وطن سے جب سے سہارنپور پڑھنے کے لئے آیا تو ہر استاذ سے مل کر آیاتھا۔ ایک استاذ جن سے ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں ان سے ملاقات نہ ہوسکی جب سہارنپور آکر پڑھنا شروع کیا تو کتاب بالکل سمجھ میں نہ آئی حالانکہ میں اپنی جماعت میں بہت سمجھدار سمجھا جاتا تھا۔ اس کے اسباب پر غور کیا۔ اللہ پاک نے رہنمائی فرمائی اور ان استاذ کی خدمت میں خط لکھ کر معافی مانگی اورملاقات نہ ہوسکنے کی وجہ لکھی۔ انھوں نے جواب میں فرمایا: میرے دل میں خیال ہوا تھا کہ مجھے چھوٹا سمجھ کر شاید تم نہیں ملے، لیکن تمہارے خط سے معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں تھی۔ اس کے بعد دعائیہ الفاظ لکھے۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ اساتذہ کے احترام ہی کا نتیجہ ہے کہ تمہارے سامنے ترمذی پڑھا رہا ہوں۔ درس کا یہ عالم تھا کہ سب کا اس پر اتفاق تھا کہ ان سے بہتر اس وقت ترمذی پڑھانے والا برصغیر میں کوئی نہیں۔ (آداب المتعلمین،ص:۳۱)

اس کتاب کے ص:۳۶ میں ہے کہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں نے علم حدیث کی سند حضرت حاجی محمدافضل صاحب سے حاصل کی تھی۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ تحصیل علم سے فراغت کے بعد حاجی صاحب نے اپنی ٹوپی جو پندرہ برس تک آپ کے عمامہ کے نیچے رہ چکی تھی مجھے عنایت فرمائی۔ میں نے وہ ٹوپی پانی میں بھگوئی۔ صبح وہ پانی پی گیا۔ اس پانی کی برکت سے دماغ ایساروشن اور ذہن ایسا تیزہوگیا کہ کوئی مشکل کتاب مشکل نہ رہی۔ اساتذہ کی ٹوپیاں اچھالنے والے اور مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی اسکیمیں کرنے والے طلبہ اس پر غور کریں کہ استاذ کی عظمت کرنے والوں نے کیا دولت حاصل کی اور پھرانھوں نے دنیا کو کیا فیض پہنچایا۔

ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر علماء و طلباء کو یہ چیز مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ لادین طبقہ ہمارے صفوں میں اختلافات برپا کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے درپے ہے۔ کفر کو بھی اگر اس وقت خطرہ ہے تو دینی مدارس سے ہے کہ یہ دین کو اصلی حالت میں باقی رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ وفاق المدارس کے خلاف پروپیگنڈا اسی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔

سیموئیل ہینٹنگٹن Samuel Huntington جو تہذیبی تصادم کتاب کا مصنف ہے اپنی کتاب ”ہم کون ہیں“؟ Who are we میں کہتا ہے کہ ہمارا دشمن اسلام ہے اور خطرہ صرف اسلام سے ہے۔ اس میں اس نے کہاہے کہ اسلام کی طاقت کا منبع (Power House) اسلامی مدارس ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان کو بند کردیا جائے یا ان کے نصاب کو جدیدیت اور مغربیت سے ہم آہنگ کردیں۔ (نوائے وقت۔ کالم، کے ایم اعظم، ۱۲/جولائی ۲۰۰۶/)

ہمیں اس پر غور کرناہے کہ مدارس اسلام کے آخری مورچہ ہیں ان کا ختم ہونا پورے تمدن کا سقوط ہے۔کفر جن خطرناک منصوبوں کے ساتھ مدارس کو ختم کرنے اور کمزور کرنے پر لگا ہوا ہے وہ ہم سب کیلئے قابل غور ہیں۔ انہی منصوبوں میں مدارس کے خلاف بدگمانیاں پیداکرنا اور مدارس سے وابستہ حضرات کے درمیان خلیج بپا کرنا ان کااہم مقصد ہے ان سب سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مدارس کے نظام کو اکابر کے نقش قدم پر چلانا ہماری زندگی کا اہم مشن ہونا چاہیے تاکہ اسلام کے یہ قلعے مزید مستحکم و مضبوط ہوسکیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 91 ‏، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء